اگر آپ ان کروڑوں لوگوں میں شامل ہیں جن کا سوشل میڈیا پر اکاؤنٹ ہے تو آپ اس تحریر میں جو کچھ پڑھنے جا رہے ہیں وہ آپ کے لیے ہرگز حیران کُن نہیں ہوگا۔ سب جانتے ہیں کہ ایکس اور میٹا جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز ہمیں اپنی جانب کھینچتے ہیں اور اپنا عادی بناتے ہیں۔
ہم جتنی زیادہ اسکرولنگ کرتے ہیں اتنے ہی زیادہ اشتہارات ہمارے سامنے آتے ہیں جس سے یہ پلیٹ فارمز منافع کماتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ان پلیٹ فارمز کو اسکرول کرنے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ یہ پلیٹ فارم کیا کچھ پیش کرتے ہیں بلکہ ہم ان پلیٹ فارمز کو اس لیے استعمال کرتے ہیں تاکہ اپنے بارے میں دیگر لوگوں کو بتائیں۔
یہ پلیٹ فارمز ہمیں دنیا کے سامنے آنے یا کم از کم اپنے چند ’فالوورز‘ یا ’فرینڈز‘ کے سامنے اپنی نمائندگی کا موقع دیتے ہیں جبکہ اس کے بدلے ان پلیٹ فارمز نے انسانی تجسس اور خود نمائی کی طرف رغبت کو اپنا ہتھیار بنایا ہوا ہے۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اعتراضات اور ہماری توجہ اپنی جانب مبذول کرنے کے ہتھکنڈے نئے نہیں ہیں۔ 2021ء کی ایک رپورٹ میں یہ تفصیل سے بیان کیا گیا ہیں کہ میٹا جیسا بڑا نام فیس بُک اور انسٹاگرام پلیٹ فارمز پر کن حربوں کو استعمال کرتا ہے۔
اس طرح کی تحقیق سے جو نتائج سامنے آتے ہیں وہ حیران کُن نہیں ہوتے۔ اس تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ ان سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا سب سے آسان ہدف وہ نوجوان ہوتے ہیں جن کی سوچ پختہ نہیں ہوتی اور وہ باآسانی سوشل میڈیا الگورتھمز کا شکار ہوجاتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ نوجوانوں کا فیس بُک اور انسٹاگرام جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے عادی ہونے کا خطرہ بھی زیادہ ہوتا ہے۔ نتیجتاً یہ نوجوان جن میں سے زیادہ تر کم عمر ہوتے ہیں، سوشل میڈیا کی لت کی وجہ سے ان کی ذہنی صحت خراب ہوجاتی ہے۔
2021ء میں وال اسٹریٹ جنرل کی رپورٹ میں میٹا کی جانب سے کی گئی تحقیق کے حوالے سے انکشاف ہوا کہ 13.5 فیصد نوجوان لڑکیوں نے مؤقف اپنایا کہ انسٹاگرام ’خودکشی کے خیالات کو پختہ کرتا ہے‘ جبکہ 17 فیصد لڑکیوں نے کہا کہ اس کے استعمال سے خوراک کے مختلف ڈس آرڈرز میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
اگرچہ ایسے قوانین موجود ہیں جن کے تحت 13 سال سے کم عمر بچوں کو سوشل میڈیا اکاؤنٹس بنانے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے لیکن ہم جانتے ہیں کہ بہت سے لوگ اس پابندی کے باوجود اور والدین کی رضامندی کے بغیر ہی سوشل میڈیا کا استعمال جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اسی طرح ٹک ٹاک پر 18 سال سے کم عمر افراد کے لیے 60 منٹ کی ڈیفالٹ حد کو بھی پاسکوڈ کا استعمال کرکے بچے باآسانی ختم کرسکتے ہیں۔
موجودہ صورتحال سے مایوس ہوکر اور اس مسئلے سے نمٹنے کے حوالے سے بڑے سوشل میڈیا اداروں میں سنجیدگی کے فقدان کی وجہ سے، اٹرنی جنرلز کے گروپ نے اب میٹا پر مقدمہ دائر کیا ہے۔
33 مختلف ریاستوں کی جانب سے دائر کی گئی درخواست میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو نوجوانوں اور بچوں کو اس کا عادی بنانے اور خراب ذہنی صحت کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔
درخواست کے مطابق سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نے جان بوجھ کر اپنے ان حربوں کے حوالے سے عوام کو گمراہ کیا جنہیں وہ نوجوان نسل کو اپنا عادی بنانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
ان ہتھکنڈوں کو استعمال کرتے ہوئے بھی میٹا جیسے معروف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اس بات پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر سکتے ہیں کہ ان پلیٹ فارمز پر گھنٹوں گزارنا نوجوانوں کے لیے کتنا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ انہیں تخلیق ہی لوگوں کو ان کا عادی بنانے کے لیے کیا گیا ہے۔
33 ریاستوں نے قانونی چارہ جوئی کی اس درخواست پر دستخط کیے ہیں جوکہ اس قسم کی پہلی کوشش ہے جہاں وہ میٹا سے ہرجانے کا مطالبہ کررہے ہیں۔
ممکن ہے کہ نوجوانوں کو ہدف بنانے کی حکمتِ عملی روکنا دیگر طریقوں سے ممکن نہ ہو لیکن شاید مقدمہ ہارنے کی صورت میں ہرجانے کی بھاری رقم بھرنے کا خوف ہی کسی حد تک اپنا کام کرجائے اور شاید اسی طرح ہم نوجوان ذہنوں کا استحصال روک سکیں۔
پاکستان میں بھی میٹا کے فیس بُک اور انسٹاگرام پلیٹ فارمز انتہائی مقبول ہیں۔ حتیٰ کہ وہ موبائل فونز جن میں زیادہ فیچرز نہیں ہوتے، ان میں بھی فیس بُک اور انسٹاگرام کی ایپلیکشنز چلتی ہیں۔ اس سے ہم یہ نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں کہ پاکستانی بچوں کی بڑی تعداد کے سوشل میڈیا پر اکاؤنٹس ہیں۔
اس کے باوجود پاکستان میں بہت کم والدین ایسے ہیں جو نظر رکھتے ہیں کہ ان کے بچے سوشل میڈیا پر کتنا وقت صرف کررہے ہیں جبکہ کچھ والدین تو اس عنصر کو بھی نظرانداز کردیتے ہیں کہ اتنا وقت سوشل میڈیا پر لگانے کی وجہ سے ان کے بچوں کی ذہنی صحت کیسے متاثر ہورہی ہے۔
دنیا بھر کے بچوں میں یہ احساس پایا جاتا ہے کہ جہاں وہ اپنی عمر کے بچوں کو زیادہ لطف اٹھاتے اور دوست بناتے دیکھتے ہیں تو وہ خود کو الگ تھلگ محسوس کرتے ہیں اور پاکستان میں بھی ایسا ہی کچھ ہوتا ہے۔
اگر الگ تھلگ ہونے کے اس احساس پر بروقت توجہ نہیں دی گئی تو یہ آگے جاکر بچوں کی خوداعتمادی، رویوں اور عمومی احساسات کو متاثر کرتا ہے۔
اگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر کیا جانے والا ہرجانے کا یہ دعویٰ کامیاب ہوجاتا ہے تو یوں کمپنیوں کا ان ذہنی مسائل کے حوالے سے بھی احتساب کیا جاسکتا ہے جن کا شکار بچے سوشل میڈیا کے استعمال سے ہوتے ہیں۔
وہ ممالک جہاں ان بڑی کمپنیوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی ممکن نہ ہو وہاں کمپنیوں پر زور دیا جاسکتا ہے کہ وہ نوجوانوں کو ہدف بنانے کی اپنی حکمتِ عملی واضح کریں جس سے ہمیں یہ سمجھ آسکے کہ صرف سوشل میڈیا اسکرول کرنے سے وہ اس کے عادی کیسے ہوجاتے ہیں۔
وہ والدین جو اپنے بچوں کو موبائل فونز رکھنے اور سوشل میڈیا پر اکاؤنٹس بنانے کی اجازت دیتے ہیں، انہیں اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ اگر ان کے منفی اثرات سے اپنے بچوں کو محفوظ رکھنا ہے تو اس کے لیے خصوصی احتیاط کی ضرورت ہوگی۔
قبول کیے جانے اور دوستوں کے گروپ میں مقبول ہونے کی ضرورت کسی دوسری عمر کے لوگوں کے مقابلے نوعمروں میں کہیں زیادہ شدید ہوتی ہے۔
اگر یہ ضرورت افسردگی اور حسد کے احساس سے جڑ جائے جس کی وجہ بچے کا خود کو الگ تھلگ یا سماجی تقریبات میں اپنی عمر کے دیگر بچوں سے مختلف محسوس کرنا ہوتی ہے اور یہی بچوں کی سماجی زندگی اور ان کی شخصیت کے لیے سنگین خطرہ ہے۔
رات دیر تک اسکرولنگ کرنا بظاہر ایک بےضرر سرگرمی لگے لیکن اس کے نقصان دہ نتائج ہوسکتے ہیں۔ نتیجتاً ایک ایسی نسل ہمارے سامنے پروان چڑھ رہی ہے جو ان متعدد ذہنی چیلنجز کا شکار ہے جن کا پہلے کسی نسل نے سامنا نہیں کیا تھا۔