• Home
  • Latest News
  • آڈیو لیکس کیس،عدالت سے غلط بیانی پر چیئرمین پی ٹی اے کو توہین عدالت کانوٹس

آڈیو لیکس کیس،عدالت سے غلط بیانی پر چیئرمین پی ٹی اے کو توہین عدالت کانوٹس

Image

اسلام آباد ہائی کورٹ نےآڈیو لیکس کیس میں کال ریکاڈنگ اور سرویلنس سسٹم کو بادی النظر میں غیر قانونی قرار دیدیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ نے آڈیو لیکس کیس میں بڑا فیصلہ جاری کردیا ہے، جسٹس بابرستار نے شہریوں کی سرویلنس اور کال ریکارڈنگ کے “لافل انٹرسپٹ مینجمنٹ سسٹم “کو بادی النظر میں غیر قانونی قرار دیدیا ہے، اور کہا ہے کہ پی ٹی اے کی جانب سے ہدایت پر موبائل فون کمپنیز نے یہ سسٹم لگارکھا ہے جس میں دو فیصد موبائل صارفین یعنی 40 لاکھ موبائل صارفین کے فو ن کالز اور میسجز کے ڈیٹا تک رسائی حاصل کی جاسکتی ہے۔

ان صارفین میں حکومتی شخصیات، سیاستدان، ججز، بزنس مین اور دیگر اہم شخصیات و ان کے اہلخانہ شامل ہیں۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اس ڈیٹا تک رسائی کس کو دی جاتی ہے اس بارے میں کچھ پتا نہیں ہے، وفاقی حکومت یا پی ٹی اے کے بقول انہیں یہ اجازت کسی کو نہیں دی ہے۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اس ڈیٹا تک رسائی کس کو دی جاتی ہے اس بارے میں کچھ پتا نہیں ہے، وفاقی حکومت یا پی ٹی اے کے بقول انہیں یہ اجازت کسی کو نہیں دی ہے۔جسٹس بابرستار نے وفاقی حکومت کی اس معاملے پر چیمبر سماعت کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا کہ شہریوں کی کال ریکارڈ کرکے لیک کرنے کا نیشنل سیکیورٹی سے کوئی تعلق نہیں ہے، 2022 میں عمران خان، عمر عطاء بندیال، شہباز شریف، بشریٰ بی بی، مریم نواز سمیت اہم شخصیات کی کالز ریکارڈ ہوئیں اور انہیں سوشل میڈیا پر مخصوص اکاؤنٹس سے لیک کیا گیا جہاں سے مین اسٹریم میڈیا پر یہ ریکارڈنگ نشر ہوئیں۔

فیصلے میں اسلام آباد و پاکستان بھر کی پولیس کی جانب سےکی گئی استدعا کو منظور کرتے ہوئے ملزمان کی سی ڈی آر اور لائیو لوکیشن پولیس کے ساتھ شیئر کرنے پر عائد پابندی ختم کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ ٹیلی کام کمپنیا ں آئندہ سماعت تک وزارت داخلہ کے ایس او پیز کے مطابق ملزمان کی لائیو لوکیشن اور سی ڈی آر پولیس، ایف آئی اے کے ساتھ شیئر کرسکتی ہیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج بابرستار نے نے موبائل فون کمپنیز کو آئندہ سماعت تک سروسیلنس سسٹم تک رسائی نا دینے کی یقین دہانی کروانے کی ہدایات دیتے ہوئے کہا کہ ٹیلی کام کمپنیز کا غیر قانونی طور پر شہریوں کے ڈیٹا تک کسی کو رسائی دینا غیر آئینی ہے، اس نظام کو کوئی لیگل بیکنگ نہیں ہے۔

فیصلے میں وفاقی حکومت سے 6 ہفتے میں رپورٹ طلب کرتے ہوئے عدالت نے استفسار کیا ہے کہ فیئر ٹرائل ایکٹ کی خلاف ورزی میں کس نے یہ سسٹم لگایا ہے؟ اس سسٹم کے آپریشنز کو کون دیکھ رہا ہے اور شہریوں کی پرائیویسی بریچ کا ذمہ دار کون ہے؟

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top